Followers

Sunday, June 16, 2019

صحافت اور اس کے تقاضے



تحریر:
انجینئر راجہ افتخار حسین ڈنمارک
میرا تعلق ایک فوجی گھرانے سے ہے اور صحافت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں لیکن اچھے صحافیوں، لکھاریوں اور شاعروں سے ملٹری کالج جہلم کے دور سے لے کر اب تک اچھا تعلق ضرور رہا ہے. میرا تعلق انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ ہے اور میں دنیا بھر کی سیمنٹ انڈسٹری کو میکنکل کے شعبے میں اسپورٹ کرتا ہوں اور الحمد للہ اب تک پچاس سے زیادہ ملکوں اور سینکڑوں کے حساب سے سیمنٹ فیکٹریوں کو اپنی خدمات دے چکا ہوں اور دے رہا ہوں.؛ یہ بلاشبہ میرے اور میرے وطن کیلئے ایک اعزاز سے کم نہیں. ملٹری کالج جہلم میں ہمیں ایسے استادِ محترم ملے جنھوں کے شاگردوں نے زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھائی چاہے وہ ملک کا دفاع کرتے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کی صورت میں ہو یا ادبی میدان ہو.
کالج میں ہمیں ادب کی طرف راغب کرنے کیلئے ایک مناسب پلیٹ فارم میسر تھا جو کہ اعلیٰ استادوں کے زیر نگرانی چلتا تھا. ان درخشندہ ستاروں میں جناب پروفیسر سعید راشد، پروفیسر مشتاق، مرزا صاحب, پروفیسر طارق اور کرنل بشیر قابل ذکر تھے . آج بھی ان کے شاگردوں میں یوسف علمگیرین اور راجہ سعید ادب اور صحافت میں اعلی مقام بنانے بیھٹے ہیں.
اب آتے ہیں صحافت اور اس کے تقاضوں پہ تو کالج میں تقریری مقابلوں کے دوران اکثر ایک موضوع زیرِ بحث آتا تھا کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے. تو میں اکثر سوچ میں پڑ جاتا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے اور مقابلے میں قلم کے حق میں دلائل دینے والے جیت بھی جاتے تھے.
پھر میرے زہین میں خیالات آتے کہ یہ قلم کے پیچھے سوچ، اس کے پیچھے شخصیت، اسکے پیچھے سچائی، اس کے پیچھے ایمانداری، اس کے پیچھے حب الوطنی، اس کے پیچھے ہمدردی، اس کے پیچھے انصاف، اور سب سے بزھ کر اس کے پیچھے چھپی ہوئی انسانیت ہے جو قلم کو تلوار سے زیادہ طاقتور کر دیتی ہے ورنہ اگر یہ سارے عوامل تلوار کے پیچھے ہاتھوں میں آجائیں اور قلم والے ہاتھ بَکنے اور بکنے لگ جائیں، جھوٹ اور فریب کو اپنا وطیرہ بنا لیں، ملک اور قوم میں مایوسی پھیلائیں، انصاف کے اصولوں کو بیچ دیں، قلم کو اصلاح کی بجائے کاروبار بنا لیں، ملک کی سلامتی کو داو پر لگا لیں تو کیا اس صورت میں پھر بھی قلم اس تلوار سے طاقتور ہے؟ جو غریبوں کو تلوار کے زور پر انصاف دلا دیے.سچ کا بول بالا کر دے، اس تلوار کے پیچھے طاقتور ہاتھ ملک کی سلامتی کو یقینی بنادیں، انصاف اور عدل قائم کر دیںاور سب سے بڑھ کر یہ تلوار غریبوں کی آواز بن جائے یہ ایک بہت بڑا سوال ہے.جو ہر ایک کے زہین میں آتا ہے لیکن میں پھر بھی پرامید ہوں اس قلم سے اس صحافت سے جو ملک اور قوم کی خیر خواہ ہے اور ملک کو ان مایوسیوں سے نکالنے میں پرامید یے اور اپنا کردار ادا کر رہی ہے. ہمیں بحیثیت مجموعی قوم ان کالی بھیڑوں کی نشاندہی کرنی یے جو ہمارے پیارے وطن کو مایوسی اور اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہیں. اللّٰہ ہمارے ملک کو آنے والی مشکلات سے بچائے آمین.
پاکستان زندہ باد

2 comments: