Followers

Tuesday, January 22, 2019

بحریہ ٹاؤن کی سپریم کورٹ کو ہاؤسنگ سکیم کو قانونی بنانے کے لیے 350 ارب روپے کی پیشکش

سپریم کورٹ نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاون کی انتظامیہ کی طرف سے کراچی میں مذکورہ سوسائٹی کو قانونی دائرے میں لانے کی لیے 350 ارب روپے کی پیشکش کو مسترد کردیا ہے۔
عدالت نے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو اپنی پیشکش پر
دوبارہ غور کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ 16٫896 ایکڑ کا ہے اور اس میں سے315 ارب روپے محض 7068 ایکڑ کے بنتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں عملدرآمد ہونے کے بارے میں سماعت کی۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سماعت کے دوران کراچی میں بحریہ ٹاون کے رقبے کے بارے میں سروے جنرل آف پاکستان، قومی احتساب بیورو اور بحریہ ٹاؤن کے نقشوں میں تضاد پر اظہار برہمی کیا اور سروے جنرل آف پاکستان کو دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
سروے جنرل آف پاکستان کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کراچی میں سرکاری زمین پر قبضے کے حوالے سے غلط بیانی کر رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جس زمین کی نشاندہی ہوچکی ہے بحریہ ٹاون کی انتظامیہ اس سے باہر بھی لوگوں میں زمینیں فروخت کر رہی ہے۔
بینچ کے سربراہ نے ڈپٹی کمشنر ملیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ زمین سرکار کی تھی اور آپ لوگ اس کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔
عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ضلعی انتظامیہ سرکاری زمین کی حفاظت نہیں کر سکتی تو وہ نیب کے مقدمات بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔
جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ عدالت نے حد بندی زمین سے باہر، زمین کی فروخت پر پابندی لگائی تھی۔ عدالت نے حکم دیا کہ اگر حد بندی سے باہر زمین بیچی گئی ہے تو پولیس پرچے درج کرے۔
بینچ کے سربراہ نے ڈپٹی کمشنر ملیر کو سرکاری زمین دو ہفتوں میں وا گزار کرانے کا حکم دیتے ہوئے اس پر عمل درآمد سے متعلق سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس عظمت سعید نےریمارکس دیے اگر سرکاری ادارے تعاون نہیں کریں گے تو اچھا نہیں ہو گا۔ اُنھوں نے کہا کہ سنہ 2014 میں عدالت نے 7ہزار ایکٹر سرکاری زمین کے نرخ 225 ارب روپے طے کیے تھے اور اگر اس میں 40 فیصد اضافہ کریں تو 315 ارب روپے بنتے ہیں۔
ملک ریاضتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionملک ریاض پاکستان میں بحریہ گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں
بحریہ ٹاؤن کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ان کے موکل مجموعی طور پر کل 16٫896 ایکٹر زمین کے عوض زیادہ سے زیادہ 350 ارب روپے دے سکتا ہے جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ 315 ارب روپے صرف 7068 ایکٹر کے بنتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہاں کوئی ٹماٹر نہیں بک رہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ وہ آئندہ سماعت پر نیب، وفاق اور سندھ حکومت کا موقف سن کر فیصلہ کریں گے۔ اس مقدمے کی سماعت 29 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔
واضح رہے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض کو پہلے یہ پیشکش کی تھی کہ وہ ایک ہزار ارب روپے دیامیر بھاشا ڈیم فنڈ کی تعمیر میں جمع کروادیں تو ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیے جائیں گے۔ ملک ریاض نے اس پر اپنا کوئی ردعمل نہیں دیا جس پر اس وقت کے چیف جسٹس نے اُنھیں پانچ سو ارب روپے جمع کروانے کی پیشکش کی جس پر بھی بحریہ ٹاون کے مالک نے کوئی حامی نہیں بھری تھی۔

No comments:

Post a Comment